Arshi khan

Add To collaction

منٹو کے افسانے भाग 3

منٹو کے افسانے 4

گھوگا
میں جب ہسپتال میں داخل ہوا تو چھٹے روز میری حالت بہت غیر ہوگئی۔ کئی روز تک بے ہوش رہا۔ ڈاکٹر جواب دے چکے تھے لیکن خدا نے اپنا کرم کیا اور میری طبیعت سنبھلنے لگی۔ اس دوران کی مجھے اکثر باتیں یاد نہیں۔ دن میں کئی آدمی ملنے کے لیے آتے ۔ لیکن مجھے قطعاً معلوم نہیں، کون آتا تھا، کون جاتا تھا، میرے بسترِ مرگ پر جیسا کہ مجھے اب معلوم ہوا، دوستوں اور عزیزوں کا جمگھٹا لگا رہتا، بعض روتے، بعض آہیں بھرتے، میری زندگی کے بیتے ہوئے واقعات دہراتے اور افسوس کا اظہار کرتے۔ جب میری طبیعت کسی قدر سنبھلی اور مجھے ذرا ہوش آیا تو میں نے آہستہ آہستہ اپنے گردوپیش کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ میں جنرل وارڈ میں تھا۔ دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ کا پہلا بیڈ میرا تھا۔ دیوار کے ساتھ لوہے کی الماری تھی۔ جس میں خاص خاص دوائیں اور آلاتِ جراحی تھے، دیگر سامان بھی تھا۔ مثلاً گرم پانی اور برف کی ربڑ کی تھیلیاں، تھرما میٹر، بستر کی چادریں، کمبل اور رُوئی وغیرہ۔ اس کے علاوہ اور بے شمار چیزیں تھیں، جن کا مصرف میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کئی نرسیں تھیں، صبح سات بجے سے دو بجے دوپہر تک۔ دو بجے سے شام کے سات بجے تک، چار چار نرسوں کی ٹولی، اس وارڈ میں کام کرتی۔ رات کو صرف ایک نرس ڈیوٹی پر ہوتی تھی۔ رات کو مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ یوں تو اکثر آنکھیں بند کیے لیٹا رہتا۔ لیکن کبھی کبھی نیم مُندی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھ لیتا کہ کیا ہورہا ہے۔ ان دنوں جو نرس رات کی ڈیوٹی پر ہوتی تھی، وہ اس قدر مختصر تھی کہ اسے کوئی بھی اپنے بٹوے میں ڈال سکتا تھا۔ گہرا سانولا رنگ، ہر عضو ایک خلاصہ، ہر خدوخال تمہید کی فوری تمت، انتہا درجے کی غیر نسوانی لڑکی تھی، معلوم نہیں، قدرت نے اس کے ساتھ اس قسم کا غیر شاعرانہ سلوک کیوں کیا تھا کہ وہ شعر تھی نہ رباعی، نہ قطعہ۔۔۔۔۔۔ البتہ استاد امام دین کی تُک بندی معلوم ہوتی تھی۔ ہر نرس کا کوئی نہ کوئی چاہنے والا موجود تھا،مگر اس غریب کا کوئی بھی نہیں تھا۔ میں نرسنگ کے پیشے کو باوجود اس کی موجودہ گراوٹوں کے احترام کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ اس لیے مجھے اس نرس سے جس کا نام مس جیکب تھا، بڑی ہمدردی تھی۔ اس سے کوئی مریض دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ ایک شام کو جب وہ آئی اورمیرے بستر کے پاس سے گزری تو میں نے اپنی نحیف آواز میں اس سے کہا:’’ السلام علیکم مس جیکب۔‘‘ اُس نے میری آواز سن لی۔ فوراً رُک کر اس نے جواب دیا’’ سلاما الیکم۔‘‘ بس اس کے بعد میرا یہ دستور ہوگیا کہ جب وہ شام کو ڈیوٹی پر آتی تو وارڈ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اس کو میری السلام علیکم سُنائی دیتی۔ مجھے نیند آنا شروع ہوگئی تھی، لیکن صبح ساڑھے پانچ بجے جاگ جاتا۔’’مِس جیکب رات بھر کی جاگی ہوئی، مریضوں کے ٹمپریچر لینے میں مصروف ہوتی۔ جب میرے بستر کے پاس آتی تو میں پھر اسے سلام کرتا۔ السلام علیکم کایہ سلسلہ بڑا دلچسپ ہوگیا، وہ اس لحاظ سے چڑ گئی کہ پہل میں کیوں کرتا ہوں۔ چنانچہ اس نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ وہ مجھ سے مسابقت لے جائے، مگر اسے ناکامی ہوئی، لیکن ایک روز صبح سویرے جب کہ زیادہ دیر تک جاگنے کے باعث میری آنکھ لگ گئی تھی۔ جب وہ میرا ٹمپریچر لینے کے لیے آئی، تو اس نے اپنی مہین پتلی آواز کو زور داربنا کر کہا’’ سلاما الیکم۔‘‘ میں چونک پڑا۔۔۔۔۔۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ مِس جیکب کا مختصر وجود میرے سامنے کھڑا مسکرا رہا ہے۔ میں نے بڑی فراخ دلی سے اپنی شکست تسلیم کی اور اس کے مطابق مناسب و موزوں مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر پیدا کرکے جواب دیا۔’’ وعلیکم السلام مس جیکب۔۔۔۔۔۔ آج تو آپ نے کمال کردیا۔‘‘ وہ بے حد خوش ہوئی، چنانچہ اس خوشی میں اس نے میرا دو مرتبہ ٹمپریچر لیا کہ پہلی دفعہ اس نے تھرما میٹر اچھی طرح جھٹکا نہیں تھا۔ ایک رات جبکہ مجھے بالکل نیند آرہی تھی اور میں بار بار اپنی گھڑی دیکھ رہا تھا کہ دن ہونے میں کتنی دیر ہے۔ بارہ بجے کے قریب میں نے اپنی دُھندلی آنکھوں سے دیکھا کہ وارڈ کے وسط میں جو میز پڑا ہے، اس کے ساتھ کرسی پر مس جیکب اپنے تمام اختصار کے ساتھ بیٹھی ہے۔ اور ایک مریض جو موٹا تھا، اس سے ہم کلام ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ چونکہ خاموشی تھی، اس لیے میں اس ?%A

   1
0 Comments